لودھراں کے نواحی علاقے دیناپور کی میڈیا میں آنے والی بہادر ماں کی ایک تصویر شایع ہوئی ہے جس میں ضعیف والدہ اپنے دو شہید بیٹوں کی میتوں کے استقبال کے لیے گلدستے تھامے گھرکے دروازے پر کھڑی ہے اور وطن کے ملی نغمے گا کر اپنے دو شہید اور غریب بیٹوں کی منتظر ہے جن دونوں بھائیوں کو بلوچستان کے ملک دشمن دہشت گردوں نے صرف اس جرم میں شہید کر دیا کہ ان کا شناختی کارڈ کسی اور صوبے کا نہیں پنجاب کے علاقے لودھراں کا تھا اور یہ دونوں شہید بھائی 30 سال سے حصول روزگار کے لیے کوئٹہ میں محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے تھے اور اپنے والد کے انتقال کے بعد واپس اپنے گھر بذریعہ بس آ رہے تھے کہ لورالائی سے گزرتے ہوئے بس سے اتارا گیا اور ان کے شناختی کارڈ بی ایل ایف کے درندوں نے چیک کیے تو وہ دونوں پنجاب سے تعلق کے ’مجرم‘ پائے گئے جس پر ان دونوں بھائیوں سمیت دیگر سات افراد کو بھی فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا اور باقی مسافروں کو جانے دیا گیا۔
بلوچستان سے نو مسافروں کی میتیں حکومت نے پنجاب پہنچائیں جہاں انھیں گارڈ آف آنر پیش کرنے کے بعد ان کے آبائی علاقوں میں لے جا کر سپردخاک کر دیا گیا جن میں ایک نوجوان مزدور بھی شامل تھا جس کی تین ماہ قبل شادی ہوئی تھی جو بعد میں بلوچستان مزدوری کرنے چلا گیا تھا اور اپنے گھر جا رہا تھا کہ دہشت گردی کا نشانہ بن گیا بس میں ایک فوجی جوان غلام سعید بھی شامل تھا جس کا ’جرم‘ پنجاب سے تھا اور وہ اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے اپنے گھر میاں چنوں جا رہا تھا جسے راستے میں شہید کر دیا گیا اور اپنے والد سے نہ مل سکا اور اس کی میت جب گھر پہنچی تو بیٹے کی آمد کا منتظر بوڑھا اور بیمار باپ بھی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا اور خود بھی چل بسا اور اگلے دن باپ بیٹے کے جنازے اٹھے تو علاقے میں کہرام برپا تھا۔ شہید فوجی کا باپ بھی فوج سے ریٹائر ہوا تھا مگر اپنی علالت میں اپنے فوجی بیٹے سے ملنے کا منتظر تھا مگر دونوں کی ملاقات نہ ہو سکی۔ شہید ہونے والوں میں دبئی سے آیا ایک شخص بھی تھا جو دوستوں سے ملنے کے لیے کوئٹہ آیا تھا اور واپس جا رہا تھا جسے پتا نہیں تھا کہ کوئٹہ کا سفر اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوگا اور واپس دبئی نہیں جا سکے گا اور اپنے پنجاب کے شناختی کارڈ کے باعث شہید کر دیا جائے گا۔
حکومت ماضی کی طرح ان مسافروں کی حفاظت کرنے میں پھر ناکام رہی اور یہ پہلا موقعہ نہیں تھا کہ پنجاب آنے والے مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ چیک کرکے شہید کیا گیا ہو۔ یہ واقعات تو اب بلوچستان سے پنجاب آنے والی شاہراہوں پر پیش آنا معمول بن چکے ہیں اور بسوں میں غیر محفوظ پنجاب کا سفر کرنے والوں کی مجبوری ہے کہ انھیں حصول رزق کے لیے بلوچستان جانا پڑتا ہے جہاں کے سفر میں ان کی حفاظت بلوچستان حکومت کی ذمے داری ہے جو وہ پوری نہیں کر رہی اور بلوچستان کی ہر حکومت مسافروں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے جب کہ بلوچستان کے غیر محفوظ سفر کے باعث وہاں شاہراہوں پر کانوائے سسٹم بھی چل رہا ہے اگر کوئٹہ ڈی جی خان کی اس اہم شاہراہ پر حکومت نے کوئی محفوظ اقدام کیا ہوتا تو یہ ایک اور بدقسمت واقعہ پیش نہ آتا اور یہ بدنصیب پنجاب میں داخل ہو سکتے تھے مگر جہازوں میں سفر کرنے والے حکمرانوں کو کیا پتا کہ ان کے صوبے میں پنجاب والے کتنے غیر محفوظ ہیں۔ اس بار یہ ضرور ہوا کہ میتیں ڈی جی خان پہنچنے پر پولیس کے چاک و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا جنھیں زندگی میں تو پولیس سے یہ عزت نہیں ملی تھی اور شہید کیے جانے کے بعد انھیں یہ عزت پہلی بار ملی مگر صدر اور وزیر اعظم نے حسب معمول ان شہادتوں کی مذمت کر دی اور یہ کر بھی کیا سکتے تھے لہٰذا تعزیتی بیان جاری ہوگئے۔
یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایک بہادر ماں نے اپنے شوہر کے جنازے میں آنے والے اپنے دو بیٹوں کی میتوں کو اس شان سے وصول کیا اور شوہرکی وفات اور دو بیٹوں کی شہادت پر پھولوں کے گلدستے ہاتھوں میں لیے ملک سے محبت کا اظہارکیا ہو۔ فوجی گھرانوں میں تو ان کی شہادتوں پر وطن سے محبت کے مناظر نظر آتے ہیں مگر یہ پہلی بار دیکھا گیا کہ ایک غیر فوجی گھرانے کی بہادر ماں نے ملی نغمے گا کر اپنے بیٹوں کی میتوں کو اس طرح وصول کیا ہو اور کہا ہو کہ میرے دونوں بیٹے وطن کی خاطر قربان ہو گئے۔ جنھیں قومی پرچم میں سپرد خاک کیا گیا۔
شہیدوں کے علاقوں میں ان کی میتیں آنے پر کہرام برپا ہوا۔ رقعت آمیز مناظر پھر نظر آئے اور سب سپرد خاک کردیے گئے مگر دیناپور کی بزرگ اور بہادر ماں نے اپنے شوہر اور دو بیٹوں کا صدمہ جس طرح برداشت کرکے اپنے ملک سے محبت کا ثبوت دیا وہ ایک قابل فخر واقعہ ہے جنھیں پتا ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں بے گناہوں کی شہادتوں کے بعد بھی یہ سلسلہ رکے گا نہیں، ماضی کی طرح پھر ایسی دہشت گردی ہوگی اور حکمران تعزیتی بیانات جاری کرکے پھر کسی اور ایسے ہی سانحے کا انتظار کریں گے۔
اس ملک میں تو یہ ہوا کہ ایک سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مجھے اقتدار سے ہٹانے سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم گرا دیا جاتا جو ان کی ملک سے محبت کا شرم ناک ثبوت ہے کہ بعض اپنے گھر کے دو افراد کی شہادت پر ملک سے محبت کا اظہار پھر کرتے ہیں اور بعض اپنے مفاد کے لیے ملک دشمن بیانات دینے سے بھی نہیں جھجکتے۔ ملک سے محبت یہ نہیں کہ ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دباتے جاؤ، قیمتی سوٹ پہن کر دنیا بھر میں گھومو، جائیدادیں بڑھاؤ، اپنوں کو نوازو اور ملک کے غریب عوام کے لیے ان کے پاس کوئی ریلیف نہیں صرف جھوٹے بیانات ہوں جو عوام کو ریلیف تو کیا تحفظ بھی نہ دے سکتے ہوں تو ایسوں سے ملک کی محبت کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟